صفحات

قومی زبان کو رواج دیں

urdu kahanian

”اردو“ کے لفظی معنی ہیں:لشکر۔ اردو دنیا کی ایک جدید  زبان ہے جس نے خود اپنا آپ متعارف کروایا حقیقت یہ ہے کہ زبان نہ کسی کی ایجاد ہوتی ہےنہ اورکوئی اسے ایجادکرسکتا ہے،بلکہ جس اصول سے پھول پر کونپل پھوٹتی، پتے نکلتے، شاخیں پھیلتی، پھل پھول لگتے ہیں۔ ایک دن وہی ننھا سے پودا ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اسی اصول کے مطابق زبان  پیدا  ہوتی، بڑھتی اور  پھلتی پھولتی  ہے۔ اردو اس سمانے کی یادگار ہے،  جب مسلمان فاتحین ہند میں داخل ہوئےاوراہلِ ہندسےان کامیل جول بڑھامختلف قوموں اور زبانوں کے ملاپ سے اس وقت کی ملکی زبان میں ایک خفیف ساتغیرآتا گیا، جس نے آخرکار ایک ایسی صورتاختیار کی جسکا تصوربھی کسی کونہ تھا۔

اس زمانےمیں مسلمان فارسی پڑھتے،لکھتے اوربولتےتھے۔اس کےساتھ ساتھ عربی مسلمانوں کی مزہبی اور علمی زبان تھی، جسے سیکھے بغیر کسی کو دستارِفضیلت ملنا ناممکن تھا، کیونکہ مسلمانوں کے  علوم و فنون کا بڑا زخیرہ عربی میں تھا۔ آہستہ آہستہ اردونےپر پھیلانےشروع کردیے۔مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں شعراء  نے اسے زبردست پزیرائی بخشی،لیکن اردو کا عروج اس وقت شروع ہوا جب مسلمان ذلت و رسوائی کی اتھاہ  گہرائیوں میں گر چکے  تھے  انگريز  نے  ہندوستان  میں آکر  اردو  کی سرپرستی  شروع   کردی  جس  کا   واضح  مقصد مسلمانوں کواپنے مذہبی،علمی،تاریخی اور ثقافتی ورثہ  سے محروم  کرنا  تھا۔

 رفتہ  رفتہ  فارسی  کو سرکاری دفاتر  سے نکال کر  اردو کو لایا گیا۔ اب اگر انگریزوں کو  مسلمانوں سے  یا اردو  سے  کسی قدر ہمدردی  ہوتی تو  وہ اسے بطورِ  دفتری زبان  ہمیشہ قائم  رکھتے، مگر جب انہوں نے اپنے  مقاصد  حاصل کرلیے اور مسلمان  عربی  و  فارسی کے  بجائے  اردو وابستہ ہوگئے تو انہوں نے ایک بارپھر مسلمانوں کی پیٹھ  میں خنجر گھونپ دیا۔ انگريزی کو  دفتری اور تعلیمی زبان کادرجہ دے دیا گیا۔تعلیمی اداروں میں لارڈ میکالے کا نظام مسلط کردیا گیا، جس کا مقصد حکومتی مشینری کےکل پرزےاور کے کلرک تیارکرنا تھا۔پھر انہی درسگاہوں سے نکلنے والے انگريزی زبان اورتہذیب و تمدن کےشکار زدہ اور اس سے مرعوب دکھائی دینےلگے۔انگريز جاتےجاتےاپنا سیاسی نظام، اپنی زبان اوراپنےتعلیمی اداروں کی پروردہ، مغرب زدہ بیورو کریسی چھوڑ  گیا، جس نے  اس  کے چلے جانےکےبعدبھی اس کے مفادات کابھرپور تحفظ کیا کسی  بھی قوم  کی عزت و سر بلندی کا راز اس کے نظامِ  تعلیم  میں پنہاں  ہوتا ہے۔ تعلیمی میدان میں ترقی کاخواب تبھی پوراہوسکتاہے،جب اپنی قومی زبان کو ذریعہءِ تعلیم بنایا،بلکہ اس بڑھ کر اگر یوں کہاجائےتو بےجا نہ ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسی مثال کسی کو نہیں مل سکتی کہ کسی قوم نے غیروں کی زبان کو اپنا کر کامیابیاں سمیٹی ہوں۔جس قوم نےلمحہ بھریہ بھی خطاکی توصدیوںنےاس کی سزا پائی۔

 ہمارا المیہ یہ ہے کہ انگريزی کے دوبول ہمیں پڑھا لکھا ثابت کرنے کےلیے ضروری ہیں، جب  تک کوئی شخص دورانِ گفتگو انگريزی چورن نہ بیچے، اسے سننے والا پڑھا لکھا مانتا ہے اور نہ وہ خود مطمئن ہوتا  ہے کہ  واقعی  کوئی  مجھے تعلیم یافتہ مان لے گا۔  یہی وجہ ہے کہ آج  تعلیمی اداروں میں اردو کے اساتذہ اردو کم اور انگلش زیادہ بولتے ہیں۔ ہمارے  کالج  میں ایک اردو کے لیکچرار صاحب انگریزی الفاظ بے دریغ استعمال کرتےتھے۔جب انہیں اس جانب توجہ دلائی گئی توانہوں نےبڑا فلسفیانہ جواب دیا جسے سن کر یقیناً آپ جھوم اٹھیں گے فرمانے لگے:
”اردو لشکری  زبان ہے  اور کشادہ سینہ رکھتی ہے۔یہ دوسری زبانوں کےالفاظ بخوشی قبول کرلیتی ہے۔“
یعنی جومیں بولتاہوں اسے انگریزی نہیں بلکہ اردو سمجھا جائے! جب معمارانِ قوم کی یہ حالت ہے تو پھرافسر شاہی سے
کیا گلہ؟......... وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا............. کارواں کے دل سے احساسِ  زیاں جاتا رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا،اپنے حصے کاچراغ جلانا ہماری ذمہ داری،باقی نتائج اللہ سبحانہٗ و تقدس کے ہاتھ میں ہیں۔