صفحات

مٹائے نہ جاسکے تیرے نقش پا

وسیع صحراء کے کشادہ سینے پر،دھیرےدھیرے سفر کرتا سورج اب تھک چکا تھا ۔بلند و بالا ریت کے ٹیلوں کے اس پار ۔ ۔ چھپنے کےلیے ۔ ۔ کچھ دیرسستانے کےلیے۔ ۔وہ بےتاب تھا۔ دور افق سے کسی طوفان کے آثاربھی نمودار ہورہےتھے۔ ۔ایساطوفان جو صحرائی ریت کے ٹیلوں کو اپنی جگہ تبدیل کرنے پہ مجبور کر دے ۔ ۔ ۔ لیکن وہ ان حالات سے بےخبر۔ ۔کسی گہری سوچ میں بیٹھا۔ ۔ڈوبتےسورج
کو تک رہا تھا ۔ اس کے ذہن میں ماں کے یہ الفاظ گونج رہے تھے: ”لڑکے!اگر تم انسان نہ بنے تو چند سالوں بعد سڑکوں پہ بھیک مانگتے پھرو گے۔ “ وہ کسی فقیر باپ کابیٹا نہ تھا کہ جس کی روزی روٹی کی فکر ماں کو کھائے جارہی تھی۔وہ توایک شہزادہ تھا۔اس کا باپ بے پناہ دولت کا مالک تھا سونےکاچمچہ منہ میں لیے وہ اس دنیا میں آیاتھا وجہ یہ تھی کہ اسےباپ کےوسیع کاروبارسےکوئی دلچسپی نہ تھی۔اس کے باپ کے دیگر ستاون بیٹے بھی تھے، مگر وہ  اپنی ماں کا اکلوتابیٹاتھا۔اورماں کو یہ فکردامن گیر تھی کہ اس کی بے اعتنائی کی وجہ سے، اس کے حصہ کے اربوں روپے بھائیوں کے
پاس چلے جائیں گے اور ہم ماں بیٹا خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔اس کے علاوہ پڑھائی میں بھی وہ، دیگربھائیوں کی طرح دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ اس کے اساتذہ کا کہنا تھاکہ تھوڑی سے مزید توجہ سے وہ”پوزیشن ہولڈر“بن سکتاہے۔مگر وہ تو کسی اور ہی
دنیاکےخیالوں میں محورہتاتھا۔ ”امتحان میں نہیں زندگی میں اول آنا چاہیے۔ مال کاروبار نہیں، کارنامے انسان کو زندہ رکھتے ہیں۔ ۔ تاریخ کے اوراق میں ۔ ۔ لوگوں کے دلوں میں۔ ۔“ یہ کہتے ہوئے، وہ ایک عزم کے ساتھ اٹھااور واپس گھر کی طرف چل دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اس کے آئیڈیل تھے۔ وہ اکثر سوچتا، حضرت خالد بن ولیدؓ کے باپ ”ولید“ کے اور بیٹے بھی تو ہوں گے، مگر تاریخ نے اس ایک کو، کیوں اپنے ماتھے کا جھومر بنایا ہے۔ ۔ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا”میں حضرت خالد بن ولیدؓ جیسا بننا چاہتا ہوں“اس کے دوست اس کا مزاق اڑاتے مگر اس کا عزم ہر مرتبہ بلند ہوجاتا۔ ابتدائی تعلیم  کے بعد  اس نے کنگ عبدالعزیزیونیورسٹی  میں داخلہ لے  لیا۔ اکنامکس اور منیجمنٹ  کی تعلیم کے  ساتھ ساتھ  اس  نے انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ اب باپ کی  بےپناہ دولت، وسیع کاروبار، اور تعمیراتی کمپنیاں اس کی منتظر تھیں۔اس نےجی بہلانے
کےلیے کاروبار میں حصہ لینا شروع کردیا۔ لیکن یہ کام اس کی بلندسوچ سےمیل نہ کھاتا تھا۔اور پھرجلد ہی قدرت نےاس کی آرزوپوری کردی۔ افغانستان کی سرزمین پر سرخ ریچھ اپنےخونی پنجےگاڑھ چکاتھا۔جیتی جاگتی بستیوں کوویران قبرستانوں اور اجتماعی قبروں میں تبدیل کرتا جارہاتھا۔ظلم وبربریت کی افسانوی داستانوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکا تھا۔ ان حالات میں اس نے سوچا، افغانستان کے سنگلاخ پہاڑ خالد بن ولیدؓ  کے، کسی جانشین کے منتظر ہیں۔ یہ سوچ کروہ لبیک لبیک کہتا،اٹھ کھڑاہوا۔اس نےافغانستان میں کیمونزم کام مقابلہ کرتے مٹھی بھر مجاہدین کو  مدد دیناشروع کردی۔
صدائے جہاد بلند کرنے کےلیے دنیا کے کونے کونے میں دیوانہ وار گھوم گیا۔ بالاآخرخود بھی میدان کارزار میں کود پڑا۔ آخر کار سرخ ریچھ اپنےزخم چاٹتادیس سدھارگیا۔ لیکن اس نےباطل کوللکارنے کامزہ چکھ لیاتھا، اب وہ کیسے آرام سےبیٹھ سکتا تھا۔؟ اب اس نے اپنی سرزمین پر موجود ”سفید بھیڑیے“ (امریکہ) کو للکارنا شروع کردیا۔ مگر یہ جرات اسے مہنگی پڑی۔ اور یہاں سےاس کےایمان کاامتحان شروع ہوگیا۔اسکی شہزادگی کی زندگی ختم ہوگئی۔ نرم گرم بچھونوں کے بجائے، بچھوٶں کی آماجگاہ اس کاٹھکانہ بن گٰئی۔اس جرم کی پاداش میں اسے دیس نکال دے دیاگیا۔وہ سوڈان جاپہنچا،مگر وہاں بھی اسے چین سےنہ رہنےدیاگیا۔۔ بالآخرایک غائبی اشارہ اسےدوبارہ افغانستان لےگیا فسادزدہ افغانستان میں بدامنی کی کھوک سے،امن کی حقیقی علمبردارتحریک،تحریک طالبان جنم لے چکی تھی۔ وہ طالبان کے پاس جا پہنچا۔اسی دوران نائن الیون کا خود ساختہ ڈرامارچایا گیا اور اس کا الزام اسی پہ لگا۔ طالبان سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا جسے انہوں نے، مہمان کے احترام کے پیش نظر سختی سےٹھکرادیا۔اس بہانے ایک بار پھرافغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ اس کی تلاش میں افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارا گیا، مگر وہ توچکنی مچھلی ثابت ہوا۔دشمن کہساروں  سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوتارہا مگراس نےانہیں ملناتھانہ ملا۔ بالآخر اس کی حیات مستعار کےدن ختم ہوگئے۔دل میں ملچتی شہادت کی آرزو نے دشمن کو اس تک رسائی دےدی۔ 02 مئی2011 کی رات دوہیلی کاپٹر جلال آباد سےاڑان بھرتے ہیں اور ایبٹ آباد آکر اترجاتے ہیں۔اسی دوران ایک  ہیلی کاپٹر تباہ ہوجاتا ہے جبکہ دوسرے میں سوار مسلح کمانڈوز اس کے کمپاٶنڈ میں گھس جاتے ہیں۔ وہ اسے زندہ گرفتار کرنا چاہتے ہیں مگر مزاحمت پہ تیار دیکھ کر اس  کے چوڑے سینے میں گرم سیسہ اتار دیتے ہیں۔اور
یوں اس  کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔ مگر اس وقت تک وہ اتنا نام کما چکا تھا کہ دشمن نے اس خوف سے اس کی لاش سمندر برد کردی کہ کہیں اس کاخون آلود سراپا دیکھ کر،اس کی قوم کوئی طوفان نہ کھڑاکردے۔لیکن وہ اپنی عزیمت وبہادری
کی ایسی داستانیں رقم کرچکا تھا،دنیاکےچپےچپے پر اپنے نقوش اس قدر بکھیر چکا تھا کہ اب اس کا وجود نہ بھی ہوتا توکوئی فرق نہ پڑتا، اور ہوا بھی یہی۔ اس کے نقش پا آج بھی مسافروں  کو منزل کا پتہ دے رہے۔اس نےاپنےدل میں بسےجذبات اورمنہ سےنکلےالفاظ کو پورا کر دکھایا۔وہ آج بھی شہزادہ عرب”شیخ اسامہ بن لادن“کےنام سےہمارےدلوں میں  زندہ ہیں۔